پسند آیا ہمیں انداز تیری زُلفِ پرہم کا
ٹھہر کر دیکھتے ہیں اب بدلتا رنگ موسم کا
یہی سجدوں کا حاصل ہے،یہی حاصل ہے اب غم کا
جو ٹپکا آنکھ سے آنسُو، وہی ماتھے پہ جا چمکا
کسی کی پیاس تک بُجھتی نہیں ساتوں سمندر سے
کسی کو ایک قطرہ ہی بُہت ہے آبِ زم زم کا
تُم اک بازو کو روتے ہو ہیاں سالم کا نوحہ ہے
ہوا ہے سر جُدا تن سے یہی موقعہ ہے ماتم کا
کبھی تُم نے کسی دل کا لہُو ہوتے نہیں دیکھا
تو پھر تُم کو بھلا کیسے ہو اندازہ مرے غم کا
یہ بندہ اپنی خصلت میں ازل سے ہی کمینہ ہے
تو پھر کیوں نہ کرے شکوہ کبھی زیادہ کبھی کم کا
بُہت جھٹکا خیالِ یار ہم نے اپنے دامن سے
مگر یادوں کے سائے پھر وہ دامن گیر آدھمکا
شب۔تاریک سے ہوتی ہے اُمید ِ سحر پیدا
جواک سوُرج کہیں ڈوبا،وہیں تارا بھی اک چمکا
صبا ممکن ہے کیسے اپنی مٹی سے ہو غداری
یہی قصہ تھا آدم کا ، یہی ہے ابنِ آدم کا
ــــــــــ مُحمد سُبُکتگین صبا بقلم خُود
پسند آیا ہمیں انداز تیری زُلفِ پرہم کا
ٹھہر کر دیکھتے ہیں اب بدلتا رنگ موسم کا
یہی سجدوں کا حاصل ہے،یہی حاصل ہے اب غم کا
جو ٹپکا آنکھ سے آنسُو، وہی ماتھے پہ جا چمکا
کسی کی پیاس تک بُجھتی نہیں ساتوں سمندر سے
کسی کو ایک قطرہ ہی بُہت ہے آبِ زم زم کا
تُم اک بازو کو روتے ہو ہیاں سالم کا نوحہ ہے
ہوا ہے سر جُدا تن سے یہی موقعہ ہے ماتم کا
کبھی تُم نے کسی دل کا لہُو ہوتے نہیں دیکھا
تو پھر تُم کو بھلا کیسے ہو اندازہ مرے غم کا
یہ بندہ اپنی خصلت میں ازل سے ہی کمینہ ہے
تو پھر کیوں نہ کرے شکوہ کبھی زیادہ کبھی کم کا
بُہت جھٹکا خیالِ یار ہم نے اپنے دامن سے
مگر یادوں کے سائے پھر وہ دامن گیر آدھمکا
شب۔تاریک سے ہوتی ہے اُمید ِ سحر پیدا
جواک سوُرج کہیں ڈوبا،وہیں تارا بھی اک چمکا
صبا ممکن ہے کیسے اپنی مٹی سے ہو غداری
یہی قصہ تھا آدم کا ، یہی ہے ابنِ آدم کا
ــــــــــ مُحمد سُبُکتگین صبا بقلم خُود
ٹھہر کر دیکھتے ہیں اب بدلتا رنگ موسم کا
یہی سجدوں کا حاصل ہے،یہی حاصل ہے اب غم کا
جو ٹپکا آنکھ سے آنسُو، وہی ماتھے پہ جا چمکا
کسی کی پیاس تک بُجھتی نہیں ساتوں سمندر سے
کسی کو ایک قطرہ ہی بُہت ہے آبِ زم زم کا
تُم اک بازو کو روتے ہو ہیاں سالم کا نوحہ ہے
ہوا ہے سر جُدا تن سے یہی موقعہ ہے ماتم کا
کبھی تُم نے کسی دل کا لہُو ہوتے نہیں دیکھا
تو پھر تُم کو بھلا کیسے ہو اندازہ مرے غم کا
یہ بندہ اپنی خصلت میں ازل سے ہی کمینہ ہے
تو پھر کیوں نہ کرے شکوہ کبھی زیادہ کبھی کم کا
بُہت جھٹکا خیالِ یار ہم نے اپنے دامن سے
مگر یادوں کے سائے پھر وہ دامن گیر آدھمکا
شب۔تاریک سے ہوتی ہے اُمید ِ سحر پیدا
جواک سوُرج کہیں ڈوبا،وہیں تارا بھی اک چمکا
صبا ممکن ہے کیسے اپنی مٹی سے ہو غداری
یہی قصہ تھا آدم کا ، یہی ہے ابنِ آدم کا
ــــــــــ مُحمد سُبُکتگین صبا بقلم خُود
No comments:
Post a Comment